۱۳۹۴ اسفند ۲۱, جمعه

نمونہ صبر زینب کا محمل سے سر کو ٹکرانا


شہید مطہری (رح)کی تحقیق کے مطابق:’’ یہ رسم قفقاز کے آرتھوڈکس عیسائیوں سے ایران میں آئی تھی اور وہاں سے دنیا میں پھیل گئی
 
 
 ہندوستان میں تقریبا ً 100سال قبل عزاداری میں ایک رسم کا اضافہ کیا گیا جسے خونی ماتم کہتے ہیں ، شہید مطہری (رح)کی تحقیق کے مطابق:’’ یہ رسم قفقاز کے آرتھوڈکس عیسائیوں سے ایران میں آئی تھی اور وہاں سے دنیا میں پھیل گئی ‘‘﴿ جاذبہ و دافعہ علی (ع) ، صفحہ154 ﴾، مراجع تقلید نے اس شرط پر اس کی اجازت دی ہے کہ:’’ اس سے بدن کو نقصان نہ پہنچے اور دین ومذہب کا مذاق نہ بنے ‘‘لیکن بعض جذباتی لوگ ان شرطوں کا خیال نہیں رکھتے اور جب انہیں اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ جناب زینب (ع) نے کوفہ میں اپنے بھائی امام حسین (ع) کا سر دیکھ کر اپنے سر کو چوب محمل سے ٹکرایا تھاجس سے آپ کے سر سے خون بہنے لگا ، لہٰذا خون بہانا جائز ہے ، اس داستان کو اَن پڑھ ذاکروں نے خوب نمک مرچ لگا کر خونی ماتم کو ثابت کرکے جذباتی نوجوانوں سے خوب واہ واہ بٹوری ، بہتر تو یہ تھا کہ لوگ اپنے اپنے مرجع کے فتوے کے مطابق اس کام کو کرتے ، لیکن لوگ بجائے اس کے ، خود اجتہاد کرنے لگے جو خطرناک صورت حال ہے ، اس داستان کو علامہ مجلسی(رح) نے بحار الانوار کی جلد 45صفحہ 114پر مسلم جصاص سے نقل کیا ہے ، مسلم جصاص نہ کوئی فقیہ تھا اور نہ محدث ، بلکہ گچکار ی ﴿POP﴾ کرنے والا ایک عام شخص تھا اسی لئے اسے جصاص کہتے ہیں ، جصاص عربی میں گچکاری ﴿POP﴾ کرنے والے کو کہتے ہیں ، ابن زیاد نے اسے دارالامارہ کی POPکرنے کے لئے بلایا تھا اور یہ وہ وقت تھا جب اسیران کربلا کا کوفہ میں داخلہ ہونے والا تھا ، اب یہ نہیں معلوم کہ مسلم جصاص شیعہ تھا یا غیر شیعہ ؟، اگر یہ شیعہ تھا تو ایسے موقع پر جب اسیران کربلا کوفہ آرہے تھے تو یہ ابن زیاد کا دارالامارہ کو ﴿Decorate﴾ سجانے کیوں گیا تھا !؟ مسلم جصاص کوفی تھا اور اسے ابن زیاد کے شیعوں پر مظالم بھی معلوم ہوں گے ، پھر بھی یہ ابن زیاد کی خدمت کرنے کو تیار ہوگیا ! اگر یہ شیعہ تھا تو اس داستان کے مطابق جو مسلم جصاص کہتا ہے کہ: میں دارالامارہ کی POPمیں مشغول تھا کہ کوفہ میں ناگہان میں نے شور و غل سنا تو ابن زیاد کے خادم سے اس کی وجہ معلوم کی تو خادم نے کہا کہ کوفہ میں ایک خارجی کا سر لایا جا رہاہے جس نے خلیفہ یزید کے خلاف خروج کیا تھا ، میں نے دریافت کیا کہ کون خارجی ؟ تو خادم نے جواب دیا کہ : حسین ابن علی (ع) ﴿نعوذ باللہ﴾ ، مسلم جصاص کی داستان کے اس حصہ سے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ شیعہ تھا اور کوفہ کا رہنے والا تھا تو یہ واقعہ کربلا اور کوفہ میں اسیرانِ کربلا کے داخلہ سے بے خبر کیوں تھا ؟ جبکہ واقعہ کربلا میں یزیدی لشکر کی کمان کوفہ ہی میں تھی اور سب سے زیادہ کربلا سے کوفہ ہی نزدیک تھا اور تمام کوفہ والے واقعہ عاشورا سے با خبر تھے تو یہ کیسا شیعہ تھا جو اتنے اہم اور دلسوز واقعہ سے بے خبر تھا اور ابن زیاد کے خادم کے ذریعہ باخبر ہوا ،اور اگر غیر شیعہ تھا تو اس کی بات پر بھروسہ کس طرح کیا جا سکتا ہے ؟ یہ داستان سند کے اعتبار سے بھی بہت زیادہ ضعیف ہے ، کیونکہ علامہ مجلسی (رح) نے اسے ’’نورالعین فی مشہد الحسین ‘‘ نامی کتاب سے نقل کیا ہے ، جس کا لکھنے والا مشخص نہیں ہے البتہ بعض لوگوں نے اس کتاب کو ’’ابراہیم بن محمد نیشاپوری اسفرائنی‘‘ سے نسبت دی ہے کہ جو اشعری مذہب اور شافعی مسلک کا ماننے والا تھا ، کیا ایسے شخص کی کتاب میں لکھی ہوئی داستان پر بغیر تحقیق کئے بھروسہ کیا جا سکتا ہے ؟! ہو سکتا ہے بعض لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ اگر ایسا تھا تو علامہ مجلسی (رح) جیسے عالم نے اپنی کتاب میں اس داستان کو جگہ کیوں دے دی ؟اس کا جواب یہ ہے کہ علامہ مجلسی (رح)کو جو بھی روایت اہل البیت (ع) سے متعلق ملی انہوں نے اپنی کتاب میں جمع کر لی اُس وقت اُن کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ تمام روایات کی تحقیق کرتے ، اسی وجہ سے علامہ مجلسی (رح) نے یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ جو کچھ بحار الانوار میں ہے وہ سب صحیح ہے ، البتہ جن علمائ کو موقع ملا انہوں نے اس تحقیقی کام کو بڑی عرق ریزی سے انجام دیا اسی لئے مذکورہ داستان کو بہت سے علمائ جیسے آیت اللہ حاج میرزا محمد ارباب و مرحوم حاج شیخ عباس قمی وغیرہ نے غیر معتبر اور ضعیف قرار دیا ہے ﴿منتہی الآمال ،شیخ عباس قمی ، صفحہ 478﴾ اس کے علاوہ مسلم جصاص اپنی داستان میں آگے کہتا ہے کہ : ’’جب خادم چلا گیا تو میں نے اپنے سرو صورت کو پیٹا اور اپنے آپ ’’کناسہ‘‘ پہنچایا جہاں اہل حرم کا قافلہ موجود تھا. چالیس بے کجاوہ اونٹوں پر اسیران کربلاکا قافلہ تھا ، جناب فاطمہ (ع) کی بیٹیوں کو اونٹوں کی ننگی پشت پر بٹھایا گیا تھا .میں نے دیکھا جیسے ہی جناب زینب (ع) کی نگاہ اپنے بھائی حسین (ع) کے سر پر پڑی تو بے ساختہ اپنے سر کو چوب محمل سے ٹکرایا جس کی وجہ سے آپ کے سر سے خون جاری ہوگیا ،عقیلۂ بنی ہاشم اور نمونۂ صبر زینب (ع) سے بعید ہے کہ وہ اس بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سر کو چوب محمل سے ٹکرا کر زخمی کریں گی ؟ جبکہ امام حسین (ع) نے کربلا میں جناب زینب(ع) کو صبر کی خاص تاکید فرمائی تھی ﴿منتہی الآمال ،شیخ عباس قمی ، صفحہ 453﴾اور یہ بھی نصیحت کی تھی کہ : ’’اے میری بہن، ام کلثوم ، فاطمہ،رباب میری شہادت کے بعد نہ گریبان چاک کرنا اور نہ رخساروں پر طمانچے مارنا اور نہ کوئی ایسا فقرہ زبان پر لانا جو تمہارے لئے شائستہ نہ ہو ‘‘﴿لہوف،ابن طاؤس علی بن موسیٰ، صفحہ82، ناشرجہان، تہران﴾ کیا جناب زینب(ع) اپنے بھائی اور امام(ع) کی نصیحت کے خلاف عمل کریں گی ؟ نہیں ! جس وقت جناب زینب (ع) نے کربلا میں روز عاشور اپنے بھائی امام حسین (ع) کے لاشہ کو ٹکڑوں میں دیکھا تو نہایت صبر کے ساتھ آسمان کی جانب رخ کرکے فرمایا کہ : ’’اے اللہ ! آل محمد (ص) سے یہ قربانی قبول فرمالے ‘‘ ﴿ترجمہ مقتل مقرم ، صفحہ 199 ﴾ اسی طرح جب ابن زیادنے بھرے دربار میں جناب زینب (ع) سے کہا کہ : تم نے دیکھا ! خدا نے تمہارے ساتھ کیا کیا ؟ اس موقع پر بڑے سے بڑے بہادر کی زبان پر شکوہ آجاتا اور رونا دھونا شروع کردیتا لیکن جناب زینب(ع) علی (ع) و فاطمہ (ع)کی بیٹی ہیں اوراپنے والدین کی صفات کی ورثہ دار ہیں ، ابن زیاد کو جواب دیتی ہیں :میں نے پروردگار کی جانب سے خیر و خوبی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ﴿لہوف،ابن طاؤس علی بن موسیٰ، صفحہ160، ناشرجہان، تہران﴾ مصیبتوں پر شکر خدا کا ایسا انداز علی (ع)کی بیٹی کا ہی ہو سکتا ہے ، روایات میں جناب زینب(ع) کو نمونۂ صبر کہا گیا ہے اور یہ آپ کی ایک فضیلت بھی ہے ،تو کیا مسلم جصاص کی داستان سے جناب زینب (ع) کی فضیلت کم رنگ نہیں ہوتی !؟مقاتل نے لکھا ہے کہ: اہل حرم کو بے کجاوہ اونٹوں پر سوار کرکے کوفہ لے جایا گیا تھا ، ﴿ترجمہ مقتل مقرم ، صفحہ 198 ومنتہی الآمال ،شیخ عباس قمی ، صفحہ 474﴾ اور خود مسلم جصاص نے بھی اپنی داستان میں یہ بات نقل کی ہے کہ اہل حرم کو چالیس بے کجاوہ اونٹوں پر لایا گیا اور داستان کے آخری حصہ میں جصاص کہتا ہے کہ جناب زینب (ع) نے چوب محمل سے اپنا سر ٹکرایا جب محمل ہی نہیں تھی تو جناب زینب (ع) نے محمل سے سر کو ٹکرا یا کس طرح ؟!یہ داستان علامہ مجلسی (رح) نے بغیر سند کے نقل کی ہے ، اسی لئے علامہ مجلسی (رح) نے اس داستان کو مرسل لکھا ہے اور مرسل روایت ضعیف ہوتی ہے ، اس داستان میں مسلم جصاص مزید کہتا ہے کہ : ’’چوب محمل سے سر ٹکرانے کے بعد جناب زینب (ع) نے یہ اشعار بھی پڑھے ، جس میں سے ایک شعر اس طرح تھا کہ : ’’اے بھیا ! تمہارا دل تو ہمارے لئے بہت نرم اور مہربان تھا تو یہ اب سخت کیوں ہو گیا ‘‘یہ اشعار ہاشمی فصاحت و بلاغت کے خلاف ہیں اور اس شعر میں جناب زینب(ع) امام حسین (ع) کو سخت دل بتلا رہی ہیں ! جب کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا ، ایسی صابرہ بی بی ہر گز ہرگز امام حسین(ع) کو سخت دل نہیں کہہ سکتیں ، بہر حال ! یہ داستان ہر لحاظ سے ضعیف ، غیر معتبر اور ناقابل یقین ہے اور اس سے سوائے جناب زینب(ع) کی توہین کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے ،لہٰذا خونی ماتم کرنے والوں کو اس داستان سے پرہیز کرنا چاہئے ، اپنے جذبات کی تسکین کی خاطر ایسی ضعیف داستان کو شیعہ سماج میں رواج دینا اور منبر سے اسے نشر کرنا فلسفۂ عزاداری کے خلاف ہے ، بالفرض محال اگر ہم اس داستان کو سچا مان لیں تب بھی اس سے خونی ماتم ثابت نہیںہوتا ہے ، کیونکہ شیعہ مذہب میں داستانوں یا واقعات سے حکم شرعی استنباط نہیں ہوتا ہے، خداوند عالم تمام مومنین کی عزاداری قبول فرمائے ﴿آمین﴾